انصاف اور اس کی امیدتحریر : اسامہ جہانزیب

انصاف ایک ایسی چیز ہے جو ہر انسان کی ضرورت اور اس کا حق ہے ہر انسان چاہتا ہے جو اس کو انصاف ملے لیکن پاکستان کے اندر دو قانون پائے جاتے ہیں ایک تو غریب کے لئے اور دوسرا امیر کے لئے جب ایک غریب آدمی انصاف کے لیے چلتا ہے تو وہ سالوں سال اس امید میں گزار دیتا ہے کہ اس کو انصاف ملے گا لیکن اس کو انصاف نہیں ملتا لیکن جب امیر انسان انصاف کے لیے نکلتا ہے تو اس کو چند ہی دنوں میں انصاف مل جاتا ہے اس کو انصاف تو نہ کہو پیسے کی پوجا کا ہو، غریب انسان کے پاس پیسے نہیں ہوتے اس لیے وہ انصاف حاصل نہیں کر سکتا لیکن امیر کے پاس پیسے ہوتے ہیں اس نے وہ سب کو خرید کر اپنے من پسند انصاف حاصل کر سکتے ہیں آج پاکستان کس لیے پیچھے ہے اس کی سب سے بڑی وجہ انصاف نہ ملنا ہے آج اگر لندن اور باقی ترقی یافتہ ملکوں کو دیکھیں تو وہاں انصاف سب کے لئے برابر ہے قانون سب کے لئے برابر ہے کنیڈا کے اندر ایک عام عورت نے وزیر اعظم پر الزام لگایا وزیراعظم نے عدالت کے اندر کھڑے ہو کر اس عورت سے معافی مانگی لیکن یہ انصاف پاکستان کے اندر نہیں مل سکتا کیونکہ یہاں بڑا جھکنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ پیسے لگا رہا ہے اور جج غریب کی بات سننا نہیں چاہتے کیونکہ وہ پیسے نہیں بھر سکتے آخر غریب تو کہاں جائے اعلی حکام کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے اندر انسان اور قانون سب کے لئے برابر رکھی تاکہ ایک غریب انسان بھی آسانی سے اپنا حق حاصل کر سکے لیکن یہ تب ہی ہوسکتا ہے یہ قانون بنانے والے اور اس کی حفاظت کرنے والے دونوں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور غریب انسان کے لئے انصاف کی امید بنے جب آپ ایک غریب انسان کے لئے انصاف کی امید بنتے ہیں جو اس کے دل دعا نکلتی ہے وہ آپ کو کامیاب کرتی ہے ہمیشہ دنیا میں سب کچھ پیسہ ہی نہیں رہا اس لئے ہم سب کچھ ہے کیا میں سچ کا ساتھ دیں اور سچ کے ساتھ رہیں خبریں وزیراعظم عمران خان صاحب سے بھی درخواست ہے کہ وہ غریب لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے ایک ٹیم کی تشکیل دیں جس کے فوکل پرسن ہرشہر میں ہوں اور اس کو ٹیم اور ہر فوکل پرسن ڈیلی کی بنیاد پر وزیر اعظم صاحب کو پریس کریں اور غریب لوگوں کے مسائل حل کریں بلا تفریق تاکہ پاکستان اس مشکل وقت سے نکل سکے اور ایک اچھا اور ترقی یافتہ ملک بن سکے کیونکہ جب غریب لوگوں کو انصاف ملنا شروع ہو جائے گا تو اس کے بعد سب معاملات خود بہت صحیح ہونے لگ جائیں گے

Twitter Handle : @usamajahnzaib

تربیت اور تعلیم میں فرق تحریر : اسامہ جہانزیب خان

انسان کی تعلیم و تربیت کا عمل اس کے پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے انسان تعلیم اور تربیت کے لیے سکول و مدرسہ کی طرف رجوع کرتا ہے بچے کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی جاتی ہے کہ اپنے بڑوں سے چھوٹو سے اور بزرگوں سے کیسے بات کرنی ہے یہ تربیت سب بچوں کو یکساں دی جاتی ہے کچھ بچے اس پر عمل کرتے ہیں اور کچھ نہیں جو بچے اس پر عمل نہیں کرتے ان کا عمل نہ کرنے کا بہت بڑا کردار اس بچے کے گھر کے مسائل اس کے والدین کا اس سے بات کرنے کے طریقے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ آج انسان اگر 16 پڑھ لے اور اس میں اخلاق نہ ہو تو کسی کام کا نہیں ہے بے شک وہ جتنے بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہے۔ بڑی قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بچوں کو تم کرکے بات کی جاتی ہے ان سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ آپ کو “آپ” کہہ کر پکارے۔ جو ہم اپنے بچوں کو بچپن میں سکھاتے ہیں اور ان کے ساتھ رویہ اختیار کرتے ہیں بچہ ہمیشہ وہی سیکھتا ہے اور بڑے ہو کر اسی تربیت پر چلتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی ایک اور بہت بڑی بدقسمتی ہے بڑے اگر غلط بھی ہو اور چھوٹا ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے تو اس کو بدتمیز کہا جاتا ہے۔ اور اگر بڑے بات کر رہے ہوں اور چھوٹا چپ کر کے بیٹھا رہے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ تمہارے منہ میں زباں نہیں ہے جیسے، آج کے دور میں لوگ تربیت پتہ نہیں کس کو کہتے ہیں۔ اگر وہی کام وہ خود کرے تو وہ ٹھیک ہے اگر وہ چھوٹا کرے تو وہ غلط ہے،
بچے اپنے والدین کا عکس ہوتے ہیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے آپ سے عزت سے پیش ہیں آپ کا احترام کریں۔ تو آپ پر بھی لازم ہے کہ اپنے بچوں کا احترام کرے ان کی عزت کرے اور ان کے ساتھ ایسے پیش آئیں جیسے آپ اپنے ہم عمر کے لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ آج کے دور میں لوگ توقع کرتے ہیں کہ ہم چھوٹوں کو جو مرضی کہیں لیکن وہ ہماری عزت کریں۔ وہ آپ کے منہ پر آپ کی عزت تو ضرور کریں گے لیکن دل میں کبھی نہیں کریں گے۔ ایسی عزت کا کیا فائدہ جو دل سے ہی نہ کی گئی ہو والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسے پیش آئے جیسے میں اپنے بڑوں کے ساتھ آتے ہیں۔ آپ کا بچہ آپ کا بینک ہے جس میں آپ اپنا اخلاق اپنی تربیت جمع کرواتے ہیں جو آج آپ جمع کروائیں گے کل کو وہی آپ کے سامنے آئے گا۔ بہت سے بچے اسی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کی تربیت ہی نہیں ہوئی ہوتی بچے سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم گھر میں بات کرتے ہیں ویسے ہی باہر کی دنیا بھی چلتی ہے میری والدین سے اپیل ہے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں ان کو اچھا ماحول مہیا کرے تاکہ بچے قابل انسان بن سکے اور چار آدمی میں بیٹھ کر اپنے خاندان کا نام روشن کر سکے۔ آج غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے اور ہم بچوں کو کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارا نام خراب کر دیا حالانکہ کہیں نہ کہیں ہماری تربیت میں کھوتی ہوتی ہے۔ اور میں اپنی ہونہار نسل کو بھی کہوں گا تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت حاصل کریں اگر ہر بار غلطی آپ کی نہیں ہوتی تو ہر بار غلطی آپ کے والدین کی بھی نہیں ہوتی آپ کے والدین آپ کو پڑھاتے ہیں بڑا کرتے ہیں اور قابل انسان بناتے ہیں اور اگر آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت حاصل نہیں کرتے تو جاھل میں اور آپ نے کوئی فرق نہیں ہے

Twitter Handle : @usamajahanzaib

بلدیاتی الیکشن اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی تحریر : اسامہ خان

 کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہے صفائی ستھرائی کا نظام بڑے شہروں میں تو بلدیاتی اور پرائیویٹ ادارے ایکٹو
 رہتے ہیں اور صفائی ستھرائی کا کام بہت اچھے طریقے سے نبھاتے ہیں لیکن چھوٹے شہروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور کوئی پوچھے گا بھی کیوں کیونکہ وزیروں نے تو بڑا شہر میں داخل ہوتا ہے نہ چھوٹے شہر میں کوئی داخل ہوگا نہ کسی کو اس چیز کی خبر ہوگی اور غلطی سے کوئی اگر چھوٹے شہروں میں صفائی ستھرائی کے لیے کمپلین بھی کر دیتا ہے تو تب بھی صفائی ستھرائی نہیں کی جاتی کیونکہ ان سے جواب طلب کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ان سے پہلے تک جتنی حکومتی گزری انہوں نے کبھی اس چیز پر غور نہیں کیا بڑے شہروں میں تو سب غور کر لیتے ہیں لیکن چھوٹے شہروں کی فریاد کوئی نہیں سنتا سن 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی اور یہ سلسلہ شروع ہوا اس وقت سے سنتے آرہے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن ہوں گے کب ہوں گے یہ کسی کو نہیں پتا لیکن اس حکومت سے بھی میرا وہی گلا ہے جو پچھلی حکومتوں سے رہا ہے پاکستان تحریک انصاف بھی بڑے شہروں کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتی ہے یا ان کے نمائندے رکھتے ہیں لیکن چھوٹے شہروں کے فریاد سننا ان کے لئے باعث شرم ہے آج اگر ان میں کوئی لاہور سے کمپلین کرتا ہے تو یہ بھاگ کر اس کمپلین کو رجوع کرتے ہیں لیکن اگر کوئی وہی کمپلین چھوٹے شہر سے کرتا ہے تو یہ صرف اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں صرف اس لئے کہ ہمارا اس شعر سے کیا مطلب کیونکہ ان کو مقبولیت تو بڑے شہروں سے مل نہیں ہوتی ہے چھوٹے شہروں کے ان کا کیا لینا دینا سننے میں آرہا ہے کہ جنوری دو ہزار بیس میں بلدیات کے الیکشن ہوں گے میں امید کرتا ہوں اس سے پہلے پہلے ہر شہر میں بلدیات کے لیے فوکل پرسن تعینات کر دیا جائے گا حکومت پنجاب کی طرف سے تاکہ چھوٹے شہروں کے بھی معاملات کو حل کیا جا سکے اگر حکومت پنجاب یہ اقدام سر انجام دیتی ہے تو مجھے امید ہے لوگوں کے 80 فیصد معاملات یہی پر حل ہو جائیں گے اور جب حکومت پنجاب فکر پرسنٹ کائنات کر دے گی بلدیات کے لیے ہر شہر میں تو فوکل پرسن ہر بلدیات کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ٹیوٹر اکاؤنٹ بنوائے گا جس سے اس شہر کی عوام گھر بیٹھے اپنے مسئلے ٹوئٹر پر شیئر کریں گے فوکل پرسن کو اور بلدیات کے اداروں کو ٹھیک کرتے ہوئے اور فوکل پرسن ان مسلوں کو جلد از جلد حل کروانے کی کوشش کرے گا اس طرح سے ہر شہر کی کاردگی بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائیگی کیونکہ لاہور میں بیٹھے گورنمنٹ پنجاب کے افسروں  کو نہیں پتا  کے چھوٹے شہروں میں کہاں پر کام نہیں ہو رہا اور کہاں پر توجہ کی ضرورت ہے یہ کام صرف اسی شہر کے نمائندے ہی کر سکتے ہیں اور یہ کام حکومت پنجاب کو کرنا چاہیے اگر وہ بلدیات کا الیکشن جیتنا چاہتے ہیں تو اگر ایسا نہ کیا گیا تو بہت سے شہروں میں بہت سے معاملات ہیں جن کی بنا پر بہت سے شہروں سے تحریک انصاف الیکشن ہار سکتی ہے لیکن اگر یہ اقدام اٹھایا جائے تو عوام کے لیے بھی سہولت ہو جائے گی اور حکومت پنجاب کی کارکردگی بھی  بہتر ہو جائے گی
Twitter: @usamajahnzaib


Usama Khan is a digital media journalist, Columnist, and Writer who writes for BaaghiTv. He raises social and political issues through his articles, for more info visit his Twitter account @usamajahnzaib